اقلیتوں کے لیے دستورکے قانونی تحفظات

تقریر:سید شہاب الدین مرحوم

ترتیب وپیش کش: محمدشفیق عالم ندوی

(معاون مرکزی تعلیمی بورڈ)

 

جناب سید شہاب الدین مرحوم (آئی ایف ایس) نے 2003 میں مرکز جماعت اسلامی ہند میں درج ذیل عنوان کے تحت ایک تقریر کی تھی۔ حالات کی مناسبت سے یہ تقریر ،تحریری شکل میں پیش کی جارہی ہے۔

ہندستان ایک جمہوری ملک ہے، اسے اقلیتوں کاوفاق بھی کہا جاسکتاہے۔ اس کے دستور میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق، آزادی، وقار اور انصاف کی ضمانت دی گئی ہے۔ نسل، مذہب، علاقہ کے نام پر تعصب اور امتیاز کی نفی کی گئی ہے۔ جمہوریت، رواداری اور سیکولرزم یعنی غیر مذہبی جانب داری کوحکومت کاسنگ بنیاد بنایا گیاہے۔یہ اقلیتوں کے ساتھ تنگ نظری، امتیاز، تعصب اور تشدد کے رویے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کے علاوہ دستور میں خاص طور پر اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی اور تعلیمی حقوق کی ضمانت دی گئی۔

قانونی لحاظ سے پانچ دفعات ہیں، جوتمام اقلیتوں کے لیے اہم ہیں۔ دستور کی دفعہ 25تا 28میں اقلیتوں کو اپنا پسندیدہ مذہب اختیار کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی آزادی شامل ہے، جب کہ دفعہ 29تا 30میں زبان اور تہذیب کی حفاظت کرنے اور اپنی پسند کے تعلیمی ادارے کھولنے اور چلانے کی خصوصی رعایت دی گئی ہے اور ان اداروں کو حکومت کی امداد فراہم کرنے کی بھی حمایت کی گئی ہے۔ اس کاواضح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی حکومت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر ایسے ذرائع اختیار کرتی ہے اور ایسی مراعات دیتی ہے جو ان کو عام شہریوں کے مساوی لے آئیں، تو اسے اقلیت نوازی نہیں کہا جاسکتا، کیوں کہ حکومت نے ملک کے دیگر پسماندہ طبقات کو تعلیم اور ملازمت میں ریزرویشن عطا کرکے سماج کے ترقی یافتہ طبقات کے برابر لانے کی سعی کی ہے۔

دفعہ 25میں آزادی ضمیر اور آزادی وضع کی بات کہی کی گئی ہے۔اس میں یہ ہے کہ ہرشخص کو ضمیر کی آزادی، اپنے مذہب کوماننے، اس پر چلنے اور اس کی نشرواشاعت کابرابر کاحق ہے۔ اسی دفعہ میں اس کابھی ذکر ہے کہ کوئی مذہبی ملت یا اس کا کوئی عنصر، اسی طرح ہرمذہبی فرقے یاٹکڑے کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے مذہبی معاملات کو وہ خود انجام دے۔ د فعہ 26میں مذکور ہے کہ ان کو اپنے مذہبی اور رفاہی مقصد (charitable purpose)کے لیے ادارے قائم کرنے کا پورا اختیار ہے۔ چوں کہ مذہبی اغراض ومقاصد کالفظ استعمال کیا گیا ہے، لہٰذا ان کے اندر وہ تمام تعلیمی ادارے آجائیں گے، جن کامقصد مذہبی تعلیم دینا ہے۔ دفعہ 27میں کہا گیا ہے کہ کسی مذہب کی اشاعت کے لیے عوامی خزانہ (public fund) کااستعمال نہیں ہوسکتا۔ آئے دن یہ بات منظر عام پر آتی ہے کہ بہت سے ایسے کاموں پر حکومت پیسے خرچ کرتی ہے، جن کا خالص تعلق مذہب کی ترویج و اشاعت سے ہوتا ہے۔ گاؤں میں مذہبی احترام کے طور پر اس کے بچاؤ کے لیے ادارے قائم کیے جاتے ہیں اور اس کو حکومت سے بلامعاوضہ زمین ملتی ہے یا حکومت سے وسائل مہیا ہوتے ہیں،تو یہ کس حد تک اس بات سے ٹکراتی ہے۔ اسی طرح وہ ادارے جن کامقصد مذہب کی اشاعت اور مذہب کی تعلیم وتربیت ہو،اصولی طور پر حکومت سے کوئی پیسہ وصول کرنا بھی غلط ہے۔ دفعہ 29میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی لسانی یا تہذیبی جماعت(cultural group)کو پورا حق ہے کہ اپنی جماعت اور اپنے رسم الخط اور اپنی تہذیب کو محفوظ رکھے۔

دفعہ 29 اقلیت کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ کسی شخص کو مذہب یا ذات یا نسل یا زبان یا کسی اور وجہ سے ایسے ادارے میں داخلے سے محروم نہیں کیا جائے گاجو کسی مذہبی جگہوں پر چلتا ہے، یاجسے سرکاری مدد ملتی ہے، اس کامطلب یہ کہ حکومت کے جتنے تعلیمی ادارے چلتے ہیں خواہ وہ حکومت کے خرچ سے چلتے ہوں یاجن کوحکومت سے مدد ملتی ہو،ان پر مسلمانوں کابرابر کاحصہ ہے۔ یہ بات دھیان میں رہنی چاہیے، لہٰذا مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کو اس طرح کے اداروں سے علیحدہ کیا جانا درست نہیں ہے۔ عام طور پر جتنے بڑے تعلیمی ادارے ہندوستان میں ہیں،خواہ یونیورسٹی سطح کے ہوں یا کالج سطح کے ،سارے حکومت کے پیسوں سے چلتے ہیں۔

دفعہ 30 پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس میں پہلی بار اقلیت (minorities) کا استعمال ہواہے۔ بسا اوقات ارباب حل وعقد کہہ دیتے ہیں کہ اقلیت (monorities)ہے کہاں، آئین میں ان کا کوئی ذکرنہیں ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں، آئین میں صاف لکھا ہواہے کہ ساری اقلیتیں، چاہے ان کی بنیاد مذہب پر ہویا زبان پر ان کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق تعلیمی ادارے قائم کریں اور ان کو چلائیں۔ ان میں تین الفاظ بہت اہم ہیں۔ ”اپنی پسند کے ادارے“، (institution of their choise)اس کی تصدیق سپریم کورٹ کے حالیہ فاصلے سے ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ نے بڑی صفائی کے ساتھ اس پر زور دیاہے کہ اقلیت مذہبی اور عصری دونوں ادارے چلا سکتے ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو مکاتب ومدارس کے علاوہ عام ادارے مثلاً پری پرائمری،پرائمری، سیکنڈری، ہائر سیکنڈری، کالج اور یونیورسٹی کی سطح کے ادارے قائم کرنے کااختیار ہے۔ دوسرا لفظ ہے قائم کرنے کاحق(right to established)۔اگر کوئی کہے کہ مسلمانوں کو مذہبی ادارے،مثلامدارس ومکاتب قائم نہیں کرنے دیں گے جیسا کہ مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اب کسی کو نئے مدارس قائم کرنے کی اجازت نہیں ہوگی تو ان کو خط لکھا گیا کہ آپ کو کس نے یہ حق دے دیا جب کہ قانون یہ کہتا ہے کہ اقلیتوں کو پورا حق ہے کہ اپنی پسند کے ادارے قائم کریں۔ اگر مسلمان مدرسے قائم کرنا چاہتے ہیں،تو آپ کو کیا اعتراض؟ دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ سارے مذہبی اداروں کو کسی نہ کسی حکومت کے بورڈ سے منسلک ہونا ہوگا۔ یہ بات مان لی جائے کہ حکومت نے اقلیت کی بہی خواہی کی غرض سے اس طرح کے ادارے قائم کیے اور وہ ان مذہبی اداروں کی فلاح وبہبو د چاہتی ہے، لیکن یہ حق مسلمانوں کا ہے کہ چاہیں تو وہ اپنے اداروں کو بورڈ سے منسلک کریں یا نہ کریں۔ حکومت یہ شرط نہیں لگاسکتی ہے کہ ہرمدرسہ جوریاست میں چل رہا ہے وہ اسی وقت جاری رہے گا جب کہ کسی بورڈ سے ملحق (recognition) ہو۔ اگر وہ بورڈ سے ملحق ہوگا تو حکومت کی جانب سے اسے بہت سی مراعات حاصل ہوں گی۔ یہاں اس بات سے آگاہ کردیا جائے کہ حکومت کی جانب سے پیش کردہ عنایات کو قبول کرنا یانہ کرنا مسلمانوں کاحق ہے۔ وہ اپنی مصلحت ، ضرورت اور اپنے خیالات واحساسات کے مطابق انہیں قبول کریں یا نہ کریں۔ چو ں کہ مذہبی تعلیم یا مدرسے کی تعلیم کا ایک خاص مقصد ہے، جو کسی حال میں فوت نہیں ہونا چاہیے۔

اقلیت کو اپنی پسند کے ادارے قائم کرنے کا حق

سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں بہت ہی مناسب وموزوں بات کہی ہے کہ اقلیتوں کو اپنے ادارے چلانے کاحق ہے، مگر چلانے کامطلب غلط طریقے سے چلانا نہیں ہے۔ to administer is not to maid administrator یہ سپریم کورٹ کے فیصلے (judgement) کے الفاظ ہیں۔ اگر اقلیت کاکوئی فرد ایک تعلیمی ادارہ چلارہاہے، تو محکمہ تعلیم کی طرف سے اس کے کچھ معیارات (standards) ہیں، کورس میں اتنی کتابیں ہو، اتنے بچوں پر ایک ٹیچر ہو وغیرہ۔ یہ تعلیمی ضروریات ہیں، ان سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ کوئی بھی ادارہ جو تعلیمی نظامت کے شعبے (dipartment of education directorate)سے منسلک ہو اسے ان تمام اصولوں پر عمل کرنا ہے۔ سارے اسکولوں کے لیے چاہے وہ سرکاری اسکول ہویا پرائیویٹ اسکول، چاہے وہ ہندو اسکول ہویامسلم اسکول، ان سب کے لیے ان کی پابندی ضروری ہے۔ مسلم اقلیتی ادارے بھی اس سے مستثنی نہیں ہوسکتے۔

اب اس مسئلے پر بحث کریں جو عام طور پر زیر غور رہتا ہے، وہ ہے سرکاری امداد ۔ یہ کسی بھی تعلیمی ادارہ کو مل سکتی ہے جو اس کی شرائط کی تکمیل کرے۔ اقلیتی وغیر اقلیتی ادارے کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے۔ ایک جانب اقلیتوں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ ہرادارے میں انہیں داخلہ مل جائے گا کوئی تفریق نہیں برتی جائے گی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جن اداروں کو سرکار کی جانب سے مددملنی چاہیے ان کو مدد دینے میں سرکار کوئی تفریق نہیں کرے گی۔ لیکن اگر سرکار پیسے دیتی ہے تو ذمہ داروں ادارہ کو وہی کرنا ہوگاجو سرکار چاہے گی اور کچھ پابندیاں عائد ہوں گی۔ آپ وہی نصاب اختیار کریں گے جو سرکار نے طے کیا ہے، وہی کتابیں پڑھائیں گے جو سرکار نے منتخب کیا ہے۔ داخلہ کا طریقہ بھی وہی ہوگا جو سرکار نے متعین کیاہے یعنی کسی طرح کے بھی تعلیمی یااداری معاملات سے انحراف آپ نہیں کرسکتے، اگر اداروں کو سرکار سے مدد ملتی ہے، تو لینا نہ لینا اختیاری ہے، لیکن جس دن آپ نے اس سے استفادہ کرلیا، اس دن سے آپ کی ساری آزادی اور سارے حقوق سلب کرلیے جائیں گے اور سرکار کا تسلط قائم ہوجائے گا۔

14 برس تک ضروری تعلیم بنیادی حقوق ہے

آئین ہند میں ہے 14سال کی عمر تک ضروری تعلیم(compulsory education)دینا ریاست کافرض ہے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ بنیادی حق(fundamental right)ہے پھر اس کو مزید مضبوط کرنے کے لیے باضابطہ آئین میں ترمیم کی گئی ہے۔اس سے ثابت ہواکہ ہربچے کایہ بنیادی حق ہے جس سے ان کے والدین بھی محروم نہیں کرسکتے ہیں۔ اس میں ایک پہلو یہ ہے کہ آئین کے بعد جوقانون بناہے، اس میں یہ کہاگیا ہے کہ اگر کوئی والدین اپنے بچے کو تعلیم حاصل کرنے سے روکیں تو ان کو سزا ہوسکتی ہے۔ آئین میں اس کی بھی جگہ ہے کہ جو ہماری بنیادی دینی ضرورت ہے کہ ہربچہ بنیادی اسلامی تعلیم سے آراستہ ہواور اس کا ذہن اور حلیہ سب اسلامی ہو۔

اقلیتی ادارہ کااطلاق

اقلیتی ادارے (minorities institutions) کسے کہتے ہیں؟کیا انفرادی طور پر کوئی مسلمان ایک ادارہ قائم کرتاہے تو اس کااطلاق اقلیتی ادارے پر ہوگا۔ نہیں، یہ تو ایک نجی ادارہ ہے۔ اقلیتی ادارہ (minority institution)کے لیے ایک اجتماعی کوشش ہونی چاہیے۔ مسلمانوں کا رہنما طبقہ (representative group)اس کام کو انجام دے کہ ہمیں ایک اچھے عوامی اسکول (public school)کی ضرورت ہے اور اسے ہم سب مل کر قائم کریں اور ارادہ یہ ہوکہ اپنے بچوں کے لیے قائم کررہے ہیں۔ تجارت کے لیے قائم نہیں کررہے ہیں، اس میں دوچیزیں رونما ہوئیں ایک اجتماعیت دوسری مقصد اجتماعیت۔ جب یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ ہوں گی تبھی وہ صحیح معنوں میں اقلیتی ادارہ ماناجائے گا۔

اگر کسی اقلیتی ادارے میں پچاس فی صد اس اقلیت کے بچے نہیں ہیں جس کے نام پر وہ ادارہ قائم کیا گیا ہے تو اسے اقلیتی ادارہ کادرجہ نہیں ملنا چاہیے۔ اگر یہ قانونی پابندی ہوگی تو ادارے قائم کرنے والے مجبور ہوں گے کہ وہ کم سے کم پچاس فی صد اس اقلیت کے بچوں کا داخلہ لیں جس کے لیے یہ ادارہ قائم کیا گیاہے۔ ایک حد تک اس پر تامل ناڈو میں عمل آوری ہوئی ہے مگر مرکز ی سطح پر ہنوز نظر نہیں آرہی ہے۔ سپریم کورٹ کاحالیہ فیصلہ آیا ہے کہ اگر کوئی اقلیتی ادارہ حکومت سے امداد نہیں لیتاہے تو وہ پورے طور پر آزاد ہے۔اگر اس میں سو فی صد اقلیتی بچوں کا داخلہ ہوتاہے تو آپس میں مقابلہ جاتی امتحان کاانعقاد ہونا چاہیے، اور یہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ میرے بھائی کابیٹا ہے یا میرے محلے کالڑکا ہے، تو اسے داخلہ لے لیا جائے اور لائق اور فائق طلبہ اس سے محروم کردیا جائے۔

اساتذہ کا تقرر

عام طور پر مسلمانوں کے بڑے ادارے ہیں، ان میں اساتذہ کی تقرری میں اس بات پر زور دیا جاتاہے کہ ان میں مسلمان اساتذہ کاہی تقرر ہو، یہ صحیح نہیں ہے، بلکہ یہ کوشش کرنا چاہیے کہ طلبہ کے لیے جوبہتر سے بہتر تعلیم وتربیت فراہم کرسکیں۔ ان کو لیں اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ ظاہر ہے، اسلامیات پڑھانے کے لیے کسی غیر مسلم استاد کا تقرر توممکن نہیں ہے، لیکن ریاضی، سائنس، جغرافیہ، انگریزی اورہندی کے لیے تو انہیں رکھا جاسکتاہے۔ان اداروں سے کم سے کم دو تہائی یا دوتہائی سے لے کرتین چوتھائی تک فیض ان اقلیتوں کو ملنا چاہیے۔ لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ غیروں کے لیے بالکل دروازہ بندہو، ہندوستان ایک کثیر مذہبی اور کثیر تہذیبی ملک ہے۔ ہمیں اسی ملک اور اسی ماحول میں زندگی بسر کرنی ہے، لہٰذا ہمارا نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ ہمارے بچے ایسے ماحول میں تعلیم پائیں کہ وہ اپنے غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کابرتاؤ کریں ۔ وہ ان کوسمجھنے لگیں اور ان کو اپنی بات سمجھانے لگیں۔ بلکہ ان کے اندر حالات سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی پید اہوجائے۔

مذہبی تعلیمی ادارے اور عام تعلیمی ادارے

مذہبی تعلیمی اداروں کو حکومت کی امداد سے علیحدہ رکھنے کی ضرورت ہے، تب ہی آزاد نصاب تعلیم کانفاذ ہو سکتا ہے۔ اس میں جس حد تک عصری تعلیم مناسب ہوگی اسی حد تک داخل کی جائے گی۔ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے کوئی پابندی عائد نہیں ہوگی۔ لیکن اگر اس کے علاوہ عام تعلیمی ادارہ چلانے کا منصوبہ ہے تو موقف واضح ہونا چاہیے کہ ہم کوئی متوازی (parallel)نظام تعلیم نہیں چلا سکتے ، ہم اپنے بچوں کی تعلیم کی کفالت نہیں کرسکتے تو اپنے بچوں کو نیچے سے تیار کرنا ہے، ان کے اندراج کی سطح بڑھانا ہے، ان کی شرح کام یابی میں اضافہ کرنی ہے۔ اگر مسلمان اپنے بچوں کوکام یاب دیکھنا چاہتے ہیں اور انہیں پیشہ ورانہ تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں تو بارہویں جماعت کے اہم مضامین کی تیاری کے لیے کوچنگ سنٹر کھولیں، تاکہ کوئی بھی ملت کاذہین طالب علم پوری طرح اپنے آپ کو تیار کرسکے۔ طلبا نے امتحان دے دیا، کامیابی بھی حاصل کرلی، مزید تعلیم کے لیے فیس کہاں سے آئے گی۔ اس کے لیے ہر ریاست میں تعلیمی فنڈ قائم کرنا ہوگا۔ ملت کے جتنے ٹرسٹ، خیراتی ادارے، اوقاف اور تنظیمیں ہیں ہر ایک کے علیحدہ علیحدہ تعلیمی اسکیمیں ہیں وہ سب اکٹھا ہوکر اپنے ذرائع کو جوڑیں اور اس بات کا اعادہ کریں کہ ملت کا کوئی بچہ صرف غربت کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہیں رہے گا۔

مکاتب اور مدارس دونوں کے سلسلے میں یہ بات ضروری ہے کہ معیار اور تجدید کاری پر غور کرنا ہوگا۔ بالخصوص مکاتب کے معیار کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے نصاب تعلیم کو ازسرنو تجدید کرنے کی جانب توجہ مبذول کرنا ہوگا۔ اس کا معیار تعلیم بلند ہو۔ ورنہ ہمارا مقصد فوت ہوجائے گا۔ یہ جو ہندتو کی آندھی چل رہی ہے اس سے سیاسی اور منطقی دونوں سطح پر بہ حیثیت قوم ہوشیار رہنا ہوگا اور ہرممکن اس کامقابلہ کرنا پڑے گا۔